باغ فدک پے ایک چھوٹا سا آرٹیکل جو کہ اعترافات بخاری کتاب سے نقل کیا جارہا ہے جس کے مصنف مولانا سید عباس ارشاد نقوی ہے
جابر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اگر بحرین سے مال آگیا تو تمہیں اتنا کچھہ دونگا لیکن بحرین سے مال نہ آیا حتی کہ رسول اللہ کا انتقال ہوگیا جب بحرین سے مال آیا تو ابوبکر نے اعلان کرایا جس شخص سے رسول نے کوئی وعدہ کیا ہو یا آپ پر کسی کا قرض ہوتو میرے پاس آجائے چنانچہ میں ان کے پاس آیا میں نے کہا رسول نے مجھے اتنا مال کا وعدہ کیا تھا مجھے ابوبکر نے مٹھی بھر کر دی میں نے گنا تو پانچ سو دینا یا دھرم تھے اور کہا اس سے دوگنا لے لو -
بخاری کتاب الکفار
خدارہ انصاف کیجیے کہ جابر بن عبد اللہ محترم ضرور ہے مگر کہا بنت رسول کہا جابر ایک طرف جب بی بی فاطمۂ اسی ابوبکر کے پاس فدک واپس لینے گعی تو گواہ مانگے گعے اور جابر مال لینے گعے تو بغیر گواہ کے صرف مال ہی نہ دیا بلکہ دوگنا لینے کو کہا -
عبیداللہ بن ابی ملکیہ سے روایت ہے کہ نبی صہ نے صہیب مولی ابن جدعان نے دو گھروں اور ایک حجرے کا دعوی کیا کہ رسول اللہ نے یہ صہیب کو عطا فرمائے تھے پس مروان نے کہا تمہارے اس دعوے کی گواہی کون دیتا ہے انہوں نے کہا ابن عمر پس انہیں بلایا گیا تو انہوں نے شہادت دی کہ یقیناً رسول اللہ نے صہیب کو دو مکان اور ایک ہجرہ عطا فرمایا تھا پس مروان نے ان کی شہادت پر ان لوگوں کے حق میں فیصلہ کر دیا -
بخاری کتاب الھبہ
ہم اس سے پہلے بھی ایک روایت تحریر کرچکے ہیں جس میں ابوبکر نے جابر بن عبداللہ کو بغیر کسی گواہ کے بحرین کا مال دے دیا اس کے بعد یہ روایت پیش ہے جس میں مروان نے صرف ابن عمر کی گواہی پر یقین کرکے فیصلہ دے دیا- اب فیصلہ اہل حق کریں* کہ یہ دہر ا معیار کیا ہے ایک طرف جابر سے گواہ مانگا ہی نہیں جاتا دوسری طرف ایک صحابہ کے بیٹے کی گواہی کافی مانی جاتی ہے -تیسری طرف بنت رسول سے گواہ مانگے جاتے ہیں اور پھر جب وہ مولا علیٔ اور حسنین جیسے گواہوں کو پیش کرتی ہیں تو عمر کے بیٹے کی گواہی مان لینے والے مروان کے پیر(ابوبکر)نبی صہ کے بیٹوں*کی گواہی ماننے سے انکار کردیتے ہیں
جناب عائشہ فرماتی ہیں*کہ رسول اللہ کی لخت جگر جناب فاطمۂ نے ابوبکر سے رسول کی وفات کے بعد میراث سے اپنے حصہ کا سوال کیا اور جو رسول اللہ نے اس مال سے چھورا جو اللہ تعالی نے آپ کو فے کے طور پر مرحمت فرمایا تھا ابوبکر نے جواب دیا کہ رسول اللہ کا یہ فرمان ہے کہ ہم انبیاء کرام میراث نہیں چھورتے بلکہ ہم جو مال چھورتے ہیں وہ صدقہ ہے جناب فاطمۂ کو اس بات پر غصہ آیا اور پھر کلام نہ کیا اور اپنی وفات تک خلیفئہ اول سے ترک کلام رکھا یہ رسول خدا کی وفات کے بعد چھہ ماہ تک زندہ رہی -
بخاری کتاب الجھاد
جناب فاطمہ کو فدک نہ دینے کی ابوبکر کی وہی غلط تاویل ہے جو نہ مطابق قرآن ہے اور نہ مطابق رسول ہے ابوبکر کے اس دعوے کے برعکس جناب فاطمۂ نے قرآن کی آیتوں کو پیش کیا تھا جس میں ایک آیت یہ بھی تھی
حضرت داود نبی نے سلیمان نبی کو اپنا وارث بنایا اگر حضرت داود نے کوئی میراث نہیں چھوری تھی تو جناب سلیمان کو وارث بنانے کا مقصد کیا تھا
دوسری آیت کے ذریعے جناب فاطمۂ نے ابوبکر کے قول کو غلط ثابت کرکے واضح کردیا کہ فدک میرا حق ہے اور ابوبکر غاضب ہے ساتھہ ساتھہ نبی صہ پر بہتان باندھنے کے بھی مجرم ہے
مگر افسوس بخاری صاحب نے ابوبکر کے ذریعے غلط حدیث کو تو نقل کردیا مگر جناب فاطمۂ کے ذریعے پیش کی گعی آیتوں کو تحریر نہ کیا حق کی تلاش کرنے والوں کے لیے یہی کافی ہے کہ بی بی فاطمہ ٔ ابوبکر سے ناراض تھیں اسی بخاری میں ہمیں یہ بھی ملتا ہے کہ جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اہل نظر بخاری کی ان دونوں روایتوں کو پرھنے کے بعد قرآن مجید سورہ احزاب کی آیت نمبر 57 پرھہ لیں جس میں ارشاد ہورہا ہے کہ
جو اللہ اور اسکے رسول کو اذیت دے اس پر اللہ کی لعنت ہے اور شدید عذاب ہے-
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا
میرے وارثوں میں کوئی دینار تقسیم نہ کیا جائے کیونکہ جو مال میں چھوروں وہ میری ازواج اور خدمت گزاروں کے خرچ کے لیے اور باقی جو بچے وہ صدقہ ہے
بخاری کتاب الجھاد
اس سے پہلے کی روایت آپ پرھہ چکے ہیں جس میں ابوبکر نے قول رسول پیش کیا تھا اسکے بعد عمر صاحب کا بھی یہی قول تھا یہ دونوں قول اسی باب میں آگے پیچھے ہیں مگر اس کے بعد ہی والی روایت ہے کہ نبی فرمارہے ہیں کہ میرے وارثوں میں کوئی دینا تقسیم نہ کیا جائے-
ایک قول ابوبکر نے ایک قول عمر نے اور ایک قول ابوہریرہ نے پیش کیا اب فیصلہ کیجئے ار ابوبکر و عمر کی بات مانئیے گا تو ابوہریرہ جھوٹے ثابت ہوتے ہیں اور اگر ابوہریرہ کو سچا مانا جائے تو یہ دونوں خلفاء جھوٹے ثابت ہوتے ہیں
میری رائے یہ ہے کہ آپ شیعوں کی بات مان لیجئے کہ تینوں جھوٹے ہیں-
مسور بن مخزومہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ نے فرمایا کہ فاطمہ میرے جسم کاحصہ ہے جس نے اسے غصہ دلایا اس نے مجھے غصہ دلایا-
کتاب المناقب
ہم مقصد تک پہنچ گعے اب اوپر کی روایتوں اور اس حدیث کو پرھنے کے بعد طے ہوا کہ ابوبکر نے حضرت فاطمہ کو غصہ نہیں دلایا بلکہ پیغمبر اسلام محمد مصطفی صہ کو غصہ دلایا یعنی ابوبکر نے بی بی فاطمہ کو غصہ دلا کر رسول کو اذیت دی اور جس نے رسول کو اذیت دی اسنے اللہ کو اذیت دی
ارض دعا
ہم اس سے پہلے بھی ایک روایت تحریر کرچکے ہیں جس میں ابوبکر نے جابر بن عبداللہ کو بغیر کسی گواہ کے بحرین کا مال دے دیا اس کے بعد یہ روایت پیش ہے جس میں مروان نے صرف ابن عمر کی گواہی پر یقین کرکے فیصلہ دے دیا- اب فیصلہ اہل حق کریں* کہ یہ دہر ا معیار کیا ہے ایک طرف جابر سے گواہ مانگا ہی نہیں جاتا دوسری طرف ایک صحابہ کے بیٹے کی گواہی کافی مانی جاتی ہے -تیسری طرف بنت رسول سے گواہ مانگے جاتے ہیں اور پھر جب وہ مولا علیٔ اور حسنین جیسے گواہوں کو پیش کرتی ہیں تو عمر کے بیٹے کی گواہی مان لینے والے مروان کے پیر(ابوبکر)نبی صہ کے بیٹوں*کی گواہی ماننے سے انکار کردیتے ہیں
جناب عائشہ فرماتی ہیں*کہ رسول اللہ کی لخت جگر جناب فاطمۂ نے ابوبکر سے رسول کی وفات کے بعد میراث سے اپنے حصہ کا سوال کیا اور جو رسول اللہ نے اس مال سے چھورا جو اللہ تعالی نے آپ کو فے کے طور پر مرحمت فرمایا تھا ابوبکر نے جواب دیا کہ رسول اللہ کا یہ فرمان ہے کہ ہم انبیاء کرام میراث نہیں چھورتے بلکہ ہم جو مال چھورتے ہیں وہ صدقہ ہے جناب فاطمۂ کو اس بات پر غصہ آیا اور پھر کلام نہ کیا اور اپنی وفات تک خلیفئہ اول سے ترک کلام رکھا یہ رسول خدا کی وفات کے بعد چھہ ماہ تک زندہ رہی -
بخاری کتاب الجھاد
جناب فاطمہ کو فدک نہ دینے کی ابوبکر کی وہی غلط تاویل ہے جو نہ مطابق قرآن ہے اور نہ مطابق رسول ہے ابوبکر کے اس دعوے کے برعکس جناب فاطمۂ نے قرآن کی آیتوں کو پیش کیا تھا جس میں ایک آیت یہ بھی تھی
حضرت داود نبی نے سلیمان نبی کو اپنا وارث بنایا اگر حضرت داود نے کوئی میراث نہیں چھوری تھی تو جناب سلیمان کو وارث بنانے کا مقصد کیا تھا
دوسری آیت کے ذریعے جناب فاطمۂ نے ابوبکر کے قول کو غلط ثابت کرکے واضح کردیا کہ فدک میرا حق ہے اور ابوبکر غاضب ہے ساتھہ ساتھہ نبی صہ پر بہتان باندھنے کے بھی مجرم ہے
مگر افسوس بخاری صاحب نے ابوبکر کے ذریعے غلط حدیث کو تو نقل کردیا مگر جناب فاطمۂ کے ذریعے پیش کی گعی آیتوں کو تحریر نہ کیا حق کی تلاش کرنے والوں کے لیے یہی کافی ہے کہ بی بی فاطمہ ٔ ابوبکر سے ناراض تھیں اسی بخاری میں ہمیں یہ بھی ملتا ہے کہ جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اہل نظر بخاری کی ان دونوں روایتوں کو پرھنے کے بعد قرآن مجید سورہ احزاب کی آیت نمبر 57 پرھہ لیں جس میں ارشاد ہورہا ہے کہ
جو اللہ اور اسکے رسول کو اذیت دے اس پر اللہ کی لعنت ہے اور شدید عذاب ہے-
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا
میرے وارثوں میں کوئی دینار تقسیم نہ کیا جائے کیونکہ جو مال میں چھوروں وہ میری ازواج اور خدمت گزاروں کے خرچ کے لیے اور باقی جو بچے وہ صدقہ ہے
بخاری کتاب الجھاد
اس سے پہلے کی روایت آپ پرھہ چکے ہیں جس میں ابوبکر نے قول رسول پیش کیا تھا اسکے بعد عمر صاحب کا بھی یہی قول تھا یہ دونوں قول اسی باب میں آگے پیچھے ہیں مگر اس کے بعد ہی والی روایت ہے کہ نبی فرمارہے ہیں کہ میرے وارثوں میں کوئی دینا تقسیم نہ کیا جائے-
ایک قول ابوبکر نے ایک قول عمر نے اور ایک قول ابوہریرہ نے پیش کیا اب فیصلہ کیجئے ار ابوبکر و عمر کی بات مانئیے گا تو ابوہریرہ جھوٹے ثابت ہوتے ہیں اور اگر ابوہریرہ کو سچا مانا جائے تو یہ دونوں خلفاء جھوٹے ثابت ہوتے ہیں
میری رائے یہ ہے کہ آپ شیعوں کی بات مان لیجئے کہ تینوں جھوٹے ہیں-
مسور بن مخزومہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ نے فرمایا کہ فاطمہ میرے جسم کاحصہ ہے جس نے اسے غصہ دلایا اس نے مجھے غصہ دلایا-
کتاب المناقب
ہم مقصد تک پہنچ گعے اب اوپر کی روایتوں اور اس حدیث کو پرھنے کے بعد طے ہوا کہ ابوبکر نے حضرت فاطمہ کو غصہ نہیں دلایا بلکہ پیغمبر اسلام محمد مصطفی صہ کو غصہ دلایا یعنی ابوبکر نے بی بی فاطمہ کو غصہ دلا کر رسول کو اذیت دی اور جس نے رسول کو اذیت دی اسنے اللہ کو اذیت دی
ارض دعا
1 comments - Add Yours
بھائی وہ جابر بن عبداللہ والی روایت دیں
Post a Comment